لیڈی آف برماآنگ سان سوچی ایک مسلمان صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے سیخ پا ہوگئیں ، سوچی کا پرانا انٹرویو نئے سوال کھڑے کرگیا، آنگ سانگ برما کے مسلمانوں کی حالت زار پرصحافی کو کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکیں۔
برطانوی مسلمان صحافی مشال حسین نے نوبل انعام یافتہ اور برما کی ڈیموکریسی ہیروئن آنگ سان سوچی کے سامنے برما میں جاری مسلمانوں کی نسل کشی کی بات سامنے رکھی تو ان کا نیا روپ سامنے آگیا ۔ برطانوی صحافی نے ان سے سوال کیا کہ برما میں مسلمان کمیونٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کچھ لوگ اسے نسل کشی کہتے ہیں؟
آنگ سانگ سوچی نے صحافی کے جواب میں کہا کہ یہ نسل کشی نہیں ہے ، یہ نیا مسئلہ ہے جو کئی مسائل سے جڑا ہوا ہے ،یہ مسائل گذشتہ سال تیزی سے بڑھے اور میرا خیال ہے کہ اس کی وجہ دونوں جانب کا خوف ہے اس لیے لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ خوف صرف مسلمانوں کے لیے نہیں
ہے۔
آنگ سان سوچی جب بضد رہیں کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں تو میزبان نے ان کوکچھ اعداد و شمار یاد دلائے، مشال حسین نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ یہ قبول کریں گی کہ نقصان کا اسکیل دونوں جانب برابر نہیں، ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب برما مسلم بے گھر ہوئے ، اور کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
صحافی کے سوال پر سوچی کا جواب وہی مرغی کی ایک ٹانگ والا رہا، آنگ سانگ نےجواب دیا کہ میرے خیال میں کئی ایسے بدھسٹ ہیں جنہوں نے مختلف وجوہات کی بناء پر ملک چھوڑا اور کئی بدھست ہیں جو مہاجرین کیمپس میں موجود ہیں۔
آنگ سانگ سوچی کا غصہ یہیں ختم نہیں ہوا ، کتاب ’’ دی لیڈی اینڈ دی جنرلز‘‘ کے مطابق انٹرویو ختم ہوتے ہی سوچی باآواز بلند بڑبڑائیںکہ کسی نے انہیں بتایا کیوں نہیں کہ ایک مسلمان ان کا انٹرویو لے گی۔